سلطان محمود غزنوی اور ایرانی بادشاہ کا دلچسپ واقعہ

 سلطان محمود غزنوی اور ایرانی بادشاہ کا واقعہ


urdu kahani, latest stories in urdu, kahani urdu,urdu novel, kahani ghar, Stories in urdu
Sultan Mehmood Ghaznavi Pics


محمود غزنوی جو کہ پوری دنیا میں اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کے پاس ایک دفعہ ایک ایرانی بادشاہ اور اسکے کچھ سفیر ملاقات کے لیے آئے۔ مکمل دن آمور سلطنت پر اور دیگر اہم مسائل پر بات چیت کرتے ہوئے گزر گیا۔ رات کو بادشاہ کے لیے اعلی ضیافت کا اہتمام کیا گیا جس کے بعد ایرانی بادشاہ اور اسکے سفیروں کو آرام کی غرض سے ان کی علیحدہ آرام گاہ میں رخصت کر دیا گیا۔ 

سلطان محمود نے مہمان نوازی میں کمی نہ رہ جانے کی غرض سے مہمان خانے کے ایک کمرہ میں رات گزاری۔ رات کے نصف پہر چل رہا تھا کہ  سلطان محمود غزنوی نے اپنے کمرے کے باہر کھڑے غلام کو بلایا۔

حسن...........

بابر کھڑے غلام نے لوٹا اور خرمچی اٹھائی اور سلطان کے کمرے میں داخل ہو گیا۔

اب سلطان محمود کا آیا ہوا ایرانی مہمان اپنے کمرے کے پردے سے یہ منظر دیکھ رہا تھا وہ غلام کے اس عمل سے بہت حیران تھا لہذا وہ بہت شدت سے غلام کا کمرے سے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔

جیسے ہی غلام حسن محمود غزنوی کے کمرے سے باہر آیا تو ایرانی بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ جب تمہیں سلطان نے حسن کہہ کر پکارہ تو تمہارا فرض تھا کہ تم  پہلے پتہ کرتے کہ کیا حکم ہے آقا۔

تم بنا پوچھے لوٹا اور خرمچی اٹھائے سلطان محمود غزنوی کے کمرے میں داخل ہو گئے  ہو سکتا تھا کہ شاید انھیں کسی اور چیز کی ضرورت ہو۔

  حسن نے جب ایرانی بادشاہ کی یہ بات سنی تو مسکراتے ہو حسن نے ایرانی بادشاہ سے کہا کہ حضور میرا پورا نام محمد حسن ہے اور میرے سلطان ہر وقت وضو میں رہتے ہیں جب وہ وضو میں نہ ہوں تو وہ مجھے حسن کہہ کر پکارتے ہیں۔ جس سے میں سمجھ جاتا ہوں کہ سلطان کو وضو کی حاجت ہے اس لیے انہوں نے اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان سے  نہیں ادا کیا ۔ 

آج تک میرے سلطان نے مجھے بنا وضو کے محمد حسن کہہ کر نہیں بلایا۔


      اللہ اکبر

یہ تھے ہمارے وہ اسلامی ہیروز جن کے دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قوت ایمانی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ اور جن کا نام سن کر کفر وشرک کانپ اٹھتا تھا۔ 

جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث اور صوفیاء کرام کا دامن تھام کر رکھا تب تک وہ دنیا میں غالب رہے اور جب انھیں ہاتھوں میں شراب اور عورتوں نے جگہ لے لی تو ذلت ورسوائی مقدر بن گئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ بغیر محنت اور مصائب اٹھائے کسی بھی قوم نے ترقی نہیں کی۔ وہ معاشرے جہاں عدل وانصاف کے تقاضے طبقے اور مال و دولت کے حساب سے ہوں تباہی اس معاشرے اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔



Post a Comment

0 Comments